وفاق کا امتحان

آج بہت عرصہ کے بعد اس موضوع کے بارے میں سوچتے ہوئے ذہن کافی سال پیچھے چلا گیا۔ جب اس علم کے آغاز کی منزل میں پہلا پڑاؤ تھا۔  وفاق کے سالانہ امتحان کا پہلا دن تھا۔ پہلا سال اور پہلا امتحان !

کتنے ہی انجانے خوف اور اندیشے گھیرے ہوئے تھے۔ نجانے کیا ہو گا۔ تیاری تو کی تھی مگر پرچہ کیسا ہو گا ؟۔ 

بس اللہ کی مدد پر بھروسہ تھا۔ آخر کو یہ بھی اسی راستے کا ایک milestone تھا، تو پھر اللہ تعالیٰ کیوں نہ آسانی کریں گے۔ امتحانی سینٹر میں اپنی ساتھی ہم جماعت سے مل کر کچھ تسلی بھی ہوئی۔ ہر طرف سفید رنگ نمایاں تھا۔ سفید لباس، سفید چادریں؛ گویا کہ اس رنگ نے اپنی چھاپ ہر شئے پر لگا دی ہو۔ اکثر کے چہروں پہ تھکن کے آثار موجود تھے رات بھر نہ سونے کی وجہ سے۔

 پھر رول نمبر سلپ کے لیئے پکارا گیا اور آخر کار اس سلپ کو تھامے ہوئے امتحان گاہ میں داخل ہوئے۔ دعائیں اور وظیفے جاری تھے۔ ہر زبان کچھ نہ کچھ دعائیہ کلمات کا ورد کرتی نظر آتی تھی۔ نگران معلمات مشفق اور ہمدردانہ انداز میں مسکراتے ہوئے مخاطب تھیں۔ اکثر طالبات گھبراہٹ کا شکار تھیں۔ پھر پرچہ آنے میں کچھ غیر معمولی تاخیر بھی ہو گئی۔ غالباً پہلا دن اور پہلا پرچہ ہونے کی بناء پر کچھ لڑکیاں ابھی بھی امتحان گاہ میں اپنی جگہ تلاش کرنے میں سرگرداں تھیں پھر تھک ہار کر ایک جگہ کونے میں بیٹھ گئیں۔ کیونکہ دیر سے آنے کی وجہ سے ان کا ٹیگ کہیں اور گم ہو گیا تھا۔

گرمی کی شدت الگ تھی، مگر اب کسی کو اس شدت کا ہوش نہیں تھا کیونکہ پرچہ ہاتھ میں آگیا تھا، بس پھر تو وقت ہی طوفانی رفتار سے چل پڑا تھا۔ اتنے گھنٹوں پہ مبنی امتحان ایسے منٹوں میں ختم ہو گیا۔

جن کا امتحان اچھا ہوا تھا وہ پرسکون انداز میں باہر آ گئیں اور جن کا اچھا نہیں ہوا تھا وہ کچھ متفکر اور پریشان تھیں۔ اور پھر اسی طرح پلک جھپک میں پورا ہفتہ گزر گیا اور ہر گزرتے سال کے ساتھ ہر امتحان بھی پر لگا کر گزرتے گئے گویا کہ وہ چھ سال نہیں بلکہ صرف چند لمحے ہی ہوں۔

یقینا وہ بہترین دن تھے۔ ایسا لگا کہ کوئی ہے جو غیبی طور پر پردے کے پیچھے سےسب کو سنبھال رہا ہے۔ بس سب کام خود سے ہوتے جا رہے تھے۔ ایک عجیب سی طمانیت کا احساس تھا۔

اسی طرح زندگی بھی اس امتحان کی طرح چند لمحوں میں ختم ہو جائے گی اور پھر جو اصل امتحان اللہ کے سامنے ہو گا۔ ایک وہ امتحان بھی ہو گا۔ نجانے ہم نے اس کی کیا تیاری کی ہے۔

آج بہت عرصے بعد پھر اس امتحان گاہ میں جا کر پھر سے امتحان دینے کی چاہ ہوئی ہے۔ وہ دنیا سے اور اس کے دھندوں اور مشاغل سےمکمل بےرغبتی اور صرف اللہ کے راستے کے طالب بن کر اس کی رضا کو پانے کی خاطر ایک سچا جذبہ لے کر اس امتحان گاہ میں بیٹھ کر شاید اپنے رب کے سامنے اصل پیشی کی کچھ تیاری تو ضرور ہوئی ہوگی۔

اتنا حسنِ ظن تو رکھنا چائیے کہ اللہ بہت قدردان ہیں۔ بس تھوڑا سا اخلاص اور معمولی کوشش سے کیا گیا چھوٹا سا عمل نجانے میزان میں کتنا وزن ڈال دے۔ یہ کس کو پتا ہے، ہاں! صرف رب کو پتا ہے۔ بدلہ وہ ہی دیتا ہے، بدلہ وہاں ہی ملے گا، یہاں تو چند نمبر اور ایک کاغذ کا ٹکڑا ملے گا جس کو فریم کروا کر سجا لیں گے۔ اصل کامیابی تو وہی ہے جو اپنے رب کے عطا کردہ جنت کے پروانے کی صورت میں ملے گی۔

اس امید پر آپ بھی اس حسین سفر کا آغاز کریں اور چلتے جائیں منزل یقیناً قریب ہے۔ اس کا حصول کٹھن اور مشکل ضرور ہو سکتا ہے مگر ناممکن ہرگزنہیں۔

(ایک گمنام کے قلم سے)

 

رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا اِنَّكَ أَنْتَ السَّمِيْعُ الْعَلِيْمُ، وَ تُبْ عَلَيْنَا ، اِنَّكَ أَنْتَ التَّوَّابُ الرَّحِيْمُ

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *